Talha Anjum
Phir Milenge
دل کے کسی
کونے میں ہی
یاد تیری
میں نے چھُپا رکھی ہے
چھُپا رکھی ہے
بھُولا نہیں، تُو بھی مجھے
بات یونہی
میں نے بنا رکھی ہے
بنا رکھی ہے

سمایا تھا دل میں وہ ایسے
انجانے دو ملتے پھر کیسے؟
تم بارش میں بھیگے، ہم بہتے
سمندر کنارے جو رہتے
اُمیدیں لگا کے وہ بیٹھے
جو اپنوں کے غم وہ بھی سہتے
یہ دنیا تو چاہتی کے بہکیں
یہ باغ اسی خوشبو سے مہکیں

ملے درد بہت، کبھی تُو بھی مل
دل میں رہتی نہیں، جانم تُو ہی دل
آج پھر آئی نہ تُو، انتظار رہا مستقل
طویل ہے غم کی شام، کہانی محبت کی مختصر
نظرثانی کرو زرا سی، قدر کرو میری کلا کی
جانے والے چلے جاتے ہیں، قسمتیں ہی تو قابو میں نہیں آتی
چھاؤں میں دھوپ کی طرح، جسم میں روح کی طرح
گزرے دماغ سے یاد تیری، لگاتار لہو کی طرح
اب کھائے جائیں یہ در و دیوار مجھے کسی بھُوک کی طرح
تیرے بنا نہیں گھر بھی گھر اکیلے محسوس یہ کیا
تیری کمی پوری ہوئی نہ آج بھی رہی ایک دل میں خَلا
خِزَاں بھی آئی بر وقت اور دل کا باغ بھی رہا نہ ہرا
تیرا ہی اعتبار باقی ساری دنیا پے بھروسہ نہیں بنا
تُو مجھ میں دیکھے انسان، باقی ساری دنیا کو دکھے بس کلا
تُو ہے، میں ہوں، اور گہری خاموشی
ہم دونوں ہی نہیں سنتے جو کچھ بھی یہ کہتی ہوگی
گلی ہے دل کی تنگ اب تیرا اُس میں آنا نہ ہو
دل کے محلے میں اب تیرے میرا جانا نہ ہو
تُو ہے، میں ہوں، اور صرف فاصلے ہیں
رابطے منقطع اور منتظر ہم آپ کے ہیں
راز ہی نہیں رازدار بھی کیا مانگتے؟
ہم خامیوں پے پردے لوگ کم ہی یہاں ڈالتے ہیں
ہم سرہانے رکھ کے خواب راتیں جاگتے ہیں
ہم تمہیں تم سے بہت بہتر جانتے ہیں
سرگوشی میں لوں نام تیرا
تیرے لیے
میں نے حیا رکھی ہے
حیا رکھی ہے
بھولا نہیں میں بھی تجھے
میرے لیے
میں نے، سزا رکھی ہے
سزا رکھی ہے

زندگی پے لکھ چکے ہیں فلسفے
اتنی دل لگی کے خود کو ہی نا پڑھ سکے
بے قدر تو در بدر یوں بے خبر ہی چل پڑے
یادیں کھینچتی ہیں، آگے ہی نہ بھڑھ سکے
سادگی بن چکی ہے اب عاجزی
منتظر کھڑے اسی مقام پے ہم آج بھی
آج پھر تُو آئی نہیں
آج پھر تُو شاعری
آج پھر تُو ایک گمان
یاد تیری کھائے گی
وہ تھی میری رضا، اب دعا بن گئی
اے میرے خدا کیا سزا بڑھ گئی ہے
میں جاگوں ساری رات، وہ صبح بن گئی
گرج کے برستے اب یہ بادل نہیں
تُو میرے ہر درد کی دوا
میں دھوپ میں کھرا محسوس کر ذرا
موسم بدلتے وے دیکھیں ہیں لوگوں کے بدلتے روپ کی طرح
شامل ہیں اب تیرے دیوانوں میں، ملیں گےخوابوں میں
رہتے خیالوں میں، الجھے سوالوں میں
کیا تم پہچانو گے یا پھر مہمانوں سے کیسے بھروسہ کریں اب انسانوں پے؟
تُو ہی خواب، تُو ہی میری خواہش
تُو ہی احساس، میں بیابان تُو بارش
ملیں گے پھر کبھی امید بھی تُو آس بھی
کھُلی کتاب کرتے زخمون کی نمائش (نمائش، نمائش)
کہانی کہاں ختم ہوتی ہے؟
پوری نہیں، ہر قسم ہوتی ہے
پھر ملیں گے کبھی، اجنبی کی طرح
اِس آس نے دل میں صبح رکھی ہے
صبح رکھی ہے
صبح رکھی ہے